مسرت اور لذت کا حصول انسانی فطرت کا خاصہ ہے ۔انسان ابتداہی سے خوشیوں کا متلاشی رہا ہے۔ کچھ خوشیاں انفرادی ہوتی ہیں جن میں صرف فرد اور اس سے تعلق رکھنے والے چند اشخاص شریک ہوتے ہیں اور کچھ خوشیاں اجتماعی ہوتی ہیں جن میں کسی مذہب یا علاقے سے وابستہ افراد من حیث القوم شریک ہوتے ہیں۔ خوشی کی ایسی تقریبات کے ایام جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور انہیں مذہبی و ثقافتی حیثیت سے اپنا لیں، اس قوم کا تہوار قرار پاتے ہیں۔ تاریخ کے ابواب قدیم قوموں کے ایسے تہوارو ں کے ذکر سے خالی نہیں۔
تہوار مختلف قوموں کی تہذیب و معاشرت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ہر قوم اپنے معتقدات اور رسوم و رواج کے مطابق اپنے تہوار مناتی ہے۔ بعض قوموں کے تہوار ظاہری آرائش و زیبائش اور مال و دولت کی نمائش سے عبارت ہوتے ہیں اور کچھ قوموں کے تہوار قومی قوت و شوکت اور قومی استقلال و استحکام کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلام ایک دین فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اور فرد اور معاشرے ، دونوں کی اصلاح و فلاح کا ذمہ داربھی، اس نے ملتِ اسلامیہ کو دو ایسے اسلامی تہواروں اور دینی جشنوں سے سرفراز کیا ہے جو فرزاندانِ اسلام کی خوشی ، روحانی بالیدگی ، انفرادی مسرت اور اجتماعی شوکت کا مظہر ہیں۔ ان میں سے ایک تہوار کا نام عید الفطر ہے اور دوسرے کا نام عیدالاضحٰی ۔
قوموں اور معاشروں کی اپنے قرب و جوار کی اقوام سے اثر پذیری ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں اہل عرب بھی اپنے ہمسایہ ملک ایران کی تہذیب و ثقافت سے متاثر تھے چنانچہ عہد جاہلیت میں یثرب کے باسیوں نے نوروز اور مہرجان کی تقریبات کو اپنالیا تھا۔ ظہور اسلام کے ایک عرصہ بعد جب ہجرت کا عظیم واقعہ رونما ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو دیکھا کہ وہ سال میں دو دن تہوار مناتے ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا : یہ دو دن کیسے ہیں؟ اہل مدینہ نے بتایا یہ دو دن ہماری مسرت اور خوشی کے دن ہیں۔ ہم ان دنوں میں کھیل کود کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم کو یوم الاضحٰی اور یوم الفطر کے دو دن عطا فرمائے ہیں جو تمہارے کھیلنے کو دنے اور خوشی منانے کے ان جاہلیت کے دنوں سے بہترہیں۔ (۱) اس طرح حضرت شارع ؑ نے اپنے اس فرمان سے عہدِ جاہلیت کی یادگار تقریباب و رسومات کا یکسر قلمع و قمع فرماکر اہل مدینہ و تمام مسلمانوں کو ’’عیدین سعیدین ‘‘ دو بابرکت عیدوں۔۔۔ کا تحفہ عطافرمایا ۔
’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں عید اور الفطر سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے ۔ ع۔و۔د۔ عادً یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا واپس ہونا ، پھر آنا (۲) چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو عید کہتے ہیں۔
فطر کے معنی کس کا م کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:
رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے فطور کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتاہے ۔ مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میںیکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادی کے ان افراد کو بھی صدقۃ (۳) الفطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۃ الفطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے یہ تہوار اسلام کے مزا ج اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتا ہے اس تہوار سے مسلمانوں کی اللہ سے وابستگی او رعبادت الٰہی سے دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے ۔ عاقل و بالغ اور تندرست مسلمان مہینہ بھر دن کو روزہ رکھتے اور رات کو تراویح میں قرآن پا ک سنتے ہیں۔ مسلمان ماہ رمضان میں تلاوت قرآ ن حکیم کا بالخصوص اہتمام کرتے ہیں۔
یوں ماہِ رمضان کے انتیس یا تیس دن گزرنے کے بعد اپنی عبادت و ریاضت اور ماہِ مبارک کی برکت و سعادت حاصل کرنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں ۔ عید کے دن علی الصبح اٹھ کر عسل کرتے ہیں چند کھجوریں(۴) یا کوئی میٹھی چیز کھاکر بلند آوازسے تکبیریں پڑھے ہوئے ’’ اﷲ اکبر اﷲ اکبر لاالہ الااﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد ‘‘ کہتے ہوئے بوڑھے بچے، جوان سب عید گاہ کی طرف رواں دوا ں ہوتے ہیں۔ شہر ہوں یا دیہات ہرجگہ مسلمان مرد و زن اور چھوٹے بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ کپڑے پہنے ، آنکھیں بشاشت سے روشن اور پیشانیاں عید کی مسرت سے منور لیے نظر آتے ہیں۔ فضائیں تحمید و تقدیس اور تکبیر و تہلیل کی روح پرور صداؤں سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں نماز عید کے لیے مسلمانوں کے اجتماعات ملی شان و شوکت کے نئے ولولے پیدا کرتے اور’’ شکو ہ ملک و دیں‘‘ کے دلنواز مناظر ، قلب و نظر کی تسکین و تمکین کا باعث بنتے ہیں۔
یوم عید کے اکثر اعمال مسنونہ سے اس عقیدے کا اظہار ہوتا ہے کہ عظمتوں کے تمام پہلو اور کبریائی کی تمام صورتیں صرف خداوند ذوالجلال کی ذات بابرکات کے شایانِ شان ہیں۔ کبریائی اسی کی ذات کی زیبائی اور عظمت وجبروت اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہیں۔ تمام بندگانِ الٰہی وہ حاکم ہوں یا محکوم ، خادم ہوں یا مخدوم ، امیر ہوں یا غریب ، قوی ہوں یا ضعیف، سب کے سب اس کے عاجز بندے اور فانی مخلوق ہیں۔ وہ سب کا حاکم علی الاطلاق اور رازق دان داتا ہے۔ وہی اوّل و آخر ، وہی حیی وقیوم اور وہی ازلی اور ابدی ہے اور عظمت و کبریائی کے تمام مظاہرے صرف اور صرف اس کا ذاتی حق ہیں۔ عید الفطر کے روز عیدگاہ جاتے ہوئے سب کے دمہ کا بلند آواز سے تکبیریں (۵) کہتے ہوئے جانا صلوۃ العیدین میں زائد تکبیریں پڑھنا اور پھر خطبہ عید میں متعدد بار ان تکبیروں کا دہرایا جانا محض اس لیے ہوتا ہے کہ توحید الٰہی اور مساوات اسلامی کا تصور مسلمانوں کے دلوں میں رج بس جائے اور ذہن کے نہاں خانوں میں اتر کر ان کے عقیدہ و عمل کا جز و لاینفک بن جائے۔
حوالہ جات
۱: علی المتقی الہندی ، کنز العمال فی سنن الأقوال و الأفعال (مؤسسۃ الرسالہ،بیروت،طبع خامس ۱۴۰۵ھ ۔۱۹۸۰م ) ۸/۵۴۱
محمد بن اسماعیل الیمنی ، سبل الاسلام ، شرح بلوغ المرام (مکتبہ مزار، مکہ، ۱۴۱۵ھ ) ۲/۶۸۴ (باب العیدین)
۲: عبدالحفیظ بلیاوی،مصباح اللغات، (قدیمی کتب خانہ ،سن ندارد ) : ۵۸۲
۳: حضرت ابن عباسؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صدقۃ الفطر ہر مسلمان چھوٹے بڑے، مرد و عورت آزاد و غلام اور شہری و دیہاتی پر واجب ہے۔ (کنز العمال حوالہ مذکور بالا۔ ص ۵۵۳) حضرت ابن عباس ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقۃ الفطر کو روزہ دار کے (روزے کو) اول فول سے پاک کرنے کی غرض اور مساکین کا رزق ہونے کی بنا پر واجب قرار دیا ۔ جس نے نماز عید سے پہلے (مستحقین کو) اس کی ادائیگی کر دی تو بارگاہ الٰہی میں اس کی یہ زکوٰۃ قبول ہوئی اور جس نے نماز عید کے بعد ادائیگی کی تو اس کی حیثیت صدقات میں سے صدقہ کی سی ہے۔ (کنز العمال حوالہ مذکور ہ بالا، ص ۵۵۳)
۴: عید الفطر کے روز عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ کھجوریں کھالینا سنت ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کان رسول اللہ ﷺ لایغرویوم الفطر حتی یاکل التمرات یعنی رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے روز (عیدگاہ جانے سے پہلے )صبح کو چند کھجوریں تناول فرماتے تھے اور حضرت انسؓ سے ہی روایت ہے کہ آپؐ جو کھجوریں تناول فرماتے تھے ان کی گنتی طاق ہوتی تھی۔
۱: البخاری ، محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری (مکتبہ دارالسلام ،ریاض ،طبع اولیٰ): ۱۸۸ (کتاب العیدین، باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج)
۲: الترمذی ،محمد بن عیسیٰ ، سنن الترمذی، ( مکتبۃ الریاض،ریاض ، سن ندارد ): ۲/۲۷ (ابواب العیدین ۔ باب فی الأکل یوم الفطر قبل الخروج )
۵: بعض فقہاء نے آیت (قرآنی ولتکملوا العدۃ والتکبروا اﷲ علٰی ماھداکم ) سے استدلال کرتے ہوئے عید الفطر کے دن تکبیریں پڑھنے کو واجب قرار دیا ہے ۔لیکن فقہاء کی اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عید الفطر کے روز تکبیریں کہنا سنت ہے ۔ الشوکانی، محمد بن علی ،نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار(مکتبہ انصار السنۃ، لاہور ) : ۳/۳۰۱، (کتاب العیدین ، باب الخروج ماشیا والتکبیر فیہ وماجاء فی خروج النساء