شبِ برأت قُربِ الہٰی کے حصول ، توبہ و استغفار اور احتساب کی رات
اسلامی ماہ و سال میں چند ایسے متبرک و محترم ایام بھی ہیں جن کو عالم اسلام میں نہایت ہی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اِن ایام مبارکہ کو خود قرآن مجید بھی ’’ایام اللہ‘‘ کے نام سے موسوم فرماتا ہے،یہ ا یام مبارکہ اور اِن ایام سے منسلک مہینے اپنی خصوصیات اور فضائل کے اعتبار سے دیگر تمام دنوں اور مہینوں سے جدا اور ممتاز ہیں،جیسے ربیع الاوّل سید عالم نور مجسم کی ولادت باسعادت کی نسبت کے حوالے سے اپنا ایک الگ ہی تشخص اور مقام رکھتا ہے، اسی طرح ماہ رجب المرجب اِس لیے قابل احترام ہے کہ اِس ماہ مبارک کی ایک رات ربّ کائنات نے اپنے محبوب کو عرش پر ملاقات کیلئے بلایا ، جنت و دوزخ اور آسمانوں کی سیر کرائی،ماہ رمضان اس لئے بے شمار نعمتوں اور برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے کہ اِس ماہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے اپنے محبوب کے قلب اطہر پر قرآن مجید نازل فرمایا ،اسی طرح ماہ شعبان ہمارے لیے اِس وجہ سے قابل احترام ہے کہِ اس ماہ مبارکہ کے بارے حضور سید عالم نے ارشاد فرمایا کہ’’ شعبان کو باقی تمام مہینوں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھے تمام انبیاء کرام پر ‘‘اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان ’’شہر حبیب الرحمن ‘‘بھی کہلاتا ہے،شعبان کو دو مبارک مہینوں رجب المرجب اور رمضان المبارک کے درمیان واقع ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اِس ماہ مبارکہ میں وہ شبِ عظیم بھی ہے جس کو’’ شب برأت اور شب رحمت و نصرت ‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،جس کے بارے میں قرآن مجید اعلان فرماتا ہے ’’حم ۔حق کو واضح کرنے والی کتاب کی قسم بے شک ہم نے اتارا ہے اسے ایک بابرکت رات میں ،ہماری یہ شان ہے کہ ہم بروقت خبردار کردیا کرتے ہیں ،اسی رات میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر کام کا ‘‘(سورہ الدخان ترجمہ جمال القرآن) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ لیلۃ مبارکہ سے مراد شب برأت ہے،حضور سید عالم کا رشاد ہے کہ’’شعبان کے مہینہ کی تمام مہینوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمام انبیاء کرام پر ہے،اور ماہ رمضان شریف کی فضیلت تمام مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح اللہ کی فضیلت اُس کے بندوں پر ہے ،جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور پسند کرتا ہے (جسے چاہتا ہے)، نہیں ہے انہیں کچھ اختیار کیونکہ نبی کریم شعبان کا سارا مہینہ روزہ رکھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اِس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام اعمال اوپر اٹھالیتا ہے ،اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اِس ماہ مقدس کا نام شعبان کیوں رکھا گیا تو صحابہ کرام نے عرض کی کہ اللہ اور اُس کا رسول خوب جانتے ہیں تو آپ نے فرمایا اِس ماہ میں خیر کثیر تقسیم کی جاتی ہے اِس لئے اِس کو شعبان کہا جاتاہے‘‘( بحوالہ روضۃ العلماء)َ اِس حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہی وہ مہینہ ہے جس میں ربّ ذوالجلال کی مخصوص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، رحمت کے دروازے کھلتے ہیں ،انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے اور تمام وہ امور جو آئندہ سال میں ہونے والے ہوتے ہیں ہر محکمہ سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو تفویض کردیئے جاتے ہیں،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے اور اُس نے ننانوے حصے اپنے پاس روک لئے ہیں اور ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا ہے اور رحمت کے اِس حصہ میں یہ بھی ہے کہ تمام مخلوق کے اندر رحمت پیدا فرمادی ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ ایک چوپایا اپنا پاؤں اپنے بیٹے پر اِس خوف سے نہیں رکھتا کہ کہیں اُس کو تکلیف نہ پہنچے ،مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ باقی ماندۂ رحمت کے ننانوے حصے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر قیامت کے دن نازل فرما کر اُن پر رحم کرے گا‘‘ مشہور کتاب ’’زہدۃ الواعظین‘‘ میں ہے کہ رجب کا مہینہ انسانی بدن کو گناہوں کی میل کچیل سے پاک کرتا ہے اور شعبان کا مہینہ دل کو گناہوں کی آلودگی سے صاف کرتا ہے اور رمضان کا مہینہ روح کی تظہیر کا باعث بنتا ہے اور جو شخص ماہ رجب میں بدن کو گناہوں کی میل کچیل سے پاک کرتا ہے تو وہ شعبان میں دل پاک کرلیتا ہے،اور جو شعبان میں دل گناہوں کی آلودگی سے صاف کرتا ہے تو وہ ماہ رمضان میں روح کو پاک کرلیتا ہے لیکن اگر وہ رجب میں بدن کو پاک نہ کرے اور شعبان میں دل کو صاف نہ کرے تو رمضان شریف میں اُس کی روح کیسے پاک ہوگی ،اسی لئے اہلِ علم فرماتے ہیں کہ رجب کا مہینہ گناہوں سے استغفار کے کیلئے ہے اور شعبان کا مہینہ عیوب سے دل کو خالی کرنے کا مہینہ ہے اور رمضان کا مہینہ روح کو روشن کرنے کیلئے ہے اور لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہے‘‘ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’جس نے ماہ شعبان کی تعظیم کی اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا اور اُس کی اطاعت کرتے ہوئے نیک اعمال کرتا رہا اور اُس نے اپنے آپ کو نافرمانی سے بچائے رکھا تو اللہ تعالیٰ اُس کے سارے گناہ بخش دے گا اور وہ اُسے اُن تمام آزمائشوں اور بیماریوں سے بچالے گا جو اِس سال وقوع پذیر ہونے والی ہیں‘‘ماہ شعبان کی فضلیت سے متعلق بے شمار احادیث مبارکہ موجود ہیں ، ہم اختصار کے ساتھ چند احادیث مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہیں،سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو جاگا کرو اور اُس کے دن میں روزہ رکھا کرو ،جب سورج غروب ہوتا ہے اُس وقت سے اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کو طلب کرنے والاکہ میں اُسے بخش دوں ،ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اُسے رزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اُسے نجات دوں ،یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے‘‘(ابن ماجہ ، بیہفی ،روح المعانی) اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتی ہیں کہ ’’ایک رات میں نے حضور ﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکلی تو میں نے آپ ﷺ کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور ﷺ نے سر اٹھایا ہوا تھا مجھے دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اُن سے زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے‘‘(ترمذی شریف)،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی نصف رات کو میرے پاس جبرائیل حاضر ہوئے اور کہا (اے محمد ﷺ ) یہ وہ رات ہے جس میں آسمانوں اور رحمت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں ،اٹھیئے نماز ادا کیجئے،اور اپنا سر مبارک دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیجئے تو میں نے کہا اے جبرائیل اِس رات کی کیا شان ہے تو اُس نے جواب دیا کہ یہ رات ہے جس میں تین سو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اللہ تعالیٰ اُن تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے جو کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں بناتے سوائے جادوگر ،کاہن،دشمنی رکھنے والے ،ہمیشہ شراب پینے والے ،زنا پر اصرار کرنے والے ،سود خور ،اپنے والدین کے نافرمان،چغل خور ،قطع تعلق کرنے والے کے،کیونکہ یہ وہ بدبخت لوگ ہیں جن کے اُس وقت تک گناہ نہیں بخشے جائیں گے جب تک وہ توبہ نہیں کرتے اور اِن گناہوں کو چھوڑ نہیں دیتے تو نبی کریم ﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے نماز ادا فرمائی اور سجدے میں گریہ وزاری کرنے لگے اور وہ یہ عرض کررہے تھے،’’اے اللہ میں تیرے عذاب اور تیری ناراضگی سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف اُس طرح نہیں کرسکتا جس طرح تو نے اپنی تعریف کی ہے، ساری تعریفیں تیرے لئے ہیںیہاں تک کہ تو راضی ہوجائے‘‘اسی مضمون کی ایک اور حدیث حضرت ابو نصر سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب شعبان کی تیرھویں رات تھی تو میرے پاس جبرائیل امین حاضر ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ اٹھیئے نماز تہجد کا وقت ہوگیا ہے اپنے ربّ سے اپنی اُمت کی بخشش کی دعا کیجئے حضور ﷺ اُٹھے صلوٰۃ و دعا میں مشغول رہے ،یہاں تک کہ صبح طلوع ہوگئی تو پھر جبرائیل امین حاضر ہوئے اور عرض کی اے محمد ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کی خاطر آپ کی اُمت کا تیسرا حصہ بخش دیا ہے،یہ سن کر آپ ﷺ رونے لگے اور فرمایا اے جبرائیل میری اُمت کے دوسرے دو حصوں کے بارے میں بھی بتایئے کہ اُن کا کیا ہوگا تو اُس نے عرض کی مجھے معلوم نہیں جب شعبان کی چودھویں رات آئی تو وہ پھر حاضر ہوئے اور عرض کی اے محمد ﷺ اٹھیئے نماز تہجد ادا فرمایئے ،حضور ﷺ نے ایسا ہی کیا تو جب صبح صادق طلوع ہوئی ،جبرائیل امین نے حاضر ہوکر عرض کی اے محمد ﷺ نے آپ کیلئے آپ کی اُمت کے دوسرے حصہ کو بھی بخش دیا ہے،لیکن حضور ﷺ اپنی اُمت کے تیسرے حصے کی بخشش کی فکر میں زارو قطار رونے لگے اور جبرائیل امین سے کہا اے جبرائیل مجھے اپنی اُمت کے تیسرے حصے کے متعلق بھی آگاہ کیجئے تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کیا،جب پندرھویں رات آئی جس کو’’ لیلۃ البرأۃ ‘‘کہتے ہیں،تو جبرائیل امین حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ اے محمد ﷺ آپ کیلئے بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اُمت کو آپ کی خاطر بخش دیا ہے سوائے اُن لوگوں کے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہیں، اُن کی بخشش نہیں ہوگی،پھر جبرائیل امین نے عرض کیا کہ اے محمد ﷺ اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمایئے اور وہاں مشاہدہ کیجئے کہ اللہ کی رحمت و بخشش کا کیا اندازہ نظر آرہا ہے تو آپ ﷺ نے نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا کہ سارے آسمانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، آسمان دنیا سے لے کر عرش معلی تک تمام ملائکہ سر بسجود ہیں اور حضور ﷺ کی اُمت کے کیلئے مغفرت و بخشش کی التجا ء کر رہے ہیں،اور آسمان کے ہر دروازے پر ایک فرشتہ موجود ہے جو اُس رات میں رکوع و سجود کرنے والوں ،اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں اور حضور ﷺ کی بارگاہ میں صلوٰۃ و سلام عرض کرنے والوں کے گناہوں کی بخشش اور جنت میں داخل ہونے کی بشارتیں دے رہاہے اور وہ فرشتے یہ عرض کررہے ہیں کہ مبارک ہو ہر اُس شخص کو جو اللہ کے ڈر سے رویا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی ہیں اور ساتویں آسمان کے دروازے پر ایک فرشتہ مقرر ہے وہ ہر اُس شخص کو مژدہ جانفزا سنا رہا ہے جو اِس رات میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور ساتھ ہی وہ یہ اعلان بھی کررہا ہے کہ کوئی مانگنے والا ہے کہ اُس کو عطا کیا جائے،کوئی ہے دعا کرنے والا، کہ اُس کے گناہ بخش دیئے جائیں اور اُس کی توبہ قبول کی جائے ،یہ سلسلہ غروب آفتاب سے طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں رات میں غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہیں،اور اللہ تعالی اِس رات بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کے برابر دوزخیوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد فرماتا ہے‘‘حضرت شیخ عبدالحق محق دہلوی رحمتہ اللہ اپنی کتاب ’’ماثبت من السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’اِس شب مبارکہ حضرت جبرئیل امین ، ربّ کے حکم سے جنت میں جاتے ہیں اورربّ العزت کا حکم سناتے ہیں کہ جنت کو آراستہ کردیا جائے اور غلامان مصطفیﷺ کیلئے اِس کو خوب سجایا جائے کیونکہ اِس مقدس شب میں اللہ تعالیٰ آسمان کے ستاروں کے شمار اور دنیا کے روز و شب کی مقدار ،درختوں کے پتوں کی گنتی اور پہاڑوں کے وزن کے برابر ذروں کے موافق دوزخی آزاد فرمائے گا‘ ‘اِس شب کی بے شمار خصوصیات میں یہ بھی ہے کہِ اس شب مبارکہ خاصانِ خدا کو علوم الہٰیہ عطا کئے جاتے ہیں، زم زم کا پانی بڑھ جاتا ہے ،ہر اَمرونہی کا فیصلہ ہوتا ہے ،بندوں کی عمر ،رزق اورعام و حوادث،مصائب و آلام، خیر و شر ،رنج و غم،فتح و ہزیمت،،وصل و فصل،ذلت و رفعت،قحط سالی و فراغی،غرضیکہ کے تمام سال ہونے والے افعال اِس شب مبارکہ میں اُس محکمہ سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو تفویض ہوتے ہیں،جس پر آئندہ سال عمل ہوتا ہے، لہذایہی وہ شب مبارک ہے جس میں اُمت عاصی کی مغفرت ہوتی ہے ،سائلوں کو عطا کیا جاتا ہے، گناہ کاروں کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں،توبہ قبول ہوتی ہے اور ربّ العزت اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتا ہے اُن کے درجے بلند کرتا ہے اور سب کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ شعبان کی پندرہ تاریخ سے قبل بندوں کے حقوق ادا کردیئے جائیں،کینہ،بغض ،عداوت ،قطع رحم ،شراب خوری ،والدین کی نافرمانی وغیرہ جیسے تمام گناہوں سے بصدق دل توبہ کی جائے ،ماں باپ اگر ناراض ہوں تو اُن کے قدموں میں سر رکھ کر معافی مانگی جائے ،مسلمان آپس میں گلے ملیں اور دینوی و دنیاوی رنجشوں اور عداوتوں کو ختم کریں تا کہ اِس شب کی حسنات و برکات سے مالا مال ہوسکیں،یہ شب اجابتِ دعا اور ذنوب و مغفرت کی بہترین شب ہے ،اِس شب طلوع فجر تک رحمت و مغفرت اور بندہ نوازی کی ندائیں آتی رہتی ہیں،اور حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں،لہذا اِس شب مبارک میں دعا و استغفار و اذکار میں خشوع خضوع سے مشغول رہنا چاہیے اور اپنے دینی دنیاوی نیک مقاصد کے ساتھ وطن عزیز پاکستان کی حیات و بقاء اور سلامتی کیلئے بتوسل سید المرسلین ﷺ دعا مانگنی چاہیے، اِس شب میں نوافل و عبادت میں بیداری بہت بڑی دولت ہے ، اور دن میں روزہ رکھنے کا بھی بے حد ثواب ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں ’’جب شعبان کی پندرھویں شب آئے تو رات کو قیام کرو اور پندرھویں کا روزہ رکھو‘‘اِس شب میں قبرستان جاکر اپنے اعزاء و اقرباء اور عام مسلمین کیلئے دعائے مغفرت کرنا سنتِ نبوی ہے اور اِس شب میں اُمت کیلئے ایصال ثواب و دعائے مغفرت کرنا مسنون ہے، اِس مبارک دن آتش بازی،پٹاخے اور دیگر لہو و لہب و خرافات وغیرہ میں مبتلا ہونا اور ایسے کاموں میں ایکدوسرے کی مدد کرنا شرعاً و اخلا قاً قطعاً ناجائز ہے ، اور اُن ضابطوں ، قاعدوں اوراصولوں کے بھی خلاف ہے جو شریعت اسلامیہ نے ہمارے لئے مقرر کئے ہیں۔ اس لیے ائے بندۂ خدا ،اِس رات کو اِس قسم کے فضول کام میں گزار دینا بہت ہی بد نصیبی ہے، ربّ العزت اِس شب میں اپنے انعام و اکرام کی بارش فرماتا ہے مغفرت و رحمت کے دروزے کھولتا ہے ،جودو سخا کے خوان اتارتا ہے اور ہم اِس مبارک اور مقدس شب کو لہوو لہب میں گزاردیں اور اُس کی روحانی فیوض و برکات سے محروم رہیںیہ بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے ،اٹھو اے عاصیو اور دوڑو ا پنے ربّ کی طرف کہ آج سر شام سے مغفرت کی ندائیں ہورہی ہیں،منالو اپنے ربّ کو کہ یہ موقعہ ہے ،لُوٹ لو ، اِس رات کی عطائیں اور نوازشیں کہ پھر نہ جانے اگلے سال یہ موقعہ ملے نہ ملے، اُس کا فضل و کرم ہمیں اپنی پناہ میں لینے کیلئے بے چین ہے،اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اِس فضل و کرم سے کتنا اپنا دامن بھرتے ہیں ،آئیے آج اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا کر یں کہ و ہ ہمیں اِس خدائی رات میں اپنی اطاعت و عبادت اور تو بہ و استغفار کی توفیق کے ساتھ اپنی اور اپنے پیارے محبوب ﷺ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا موقع عطا فرمائے اور ہم پر اپنی رحمت و عطا اور جود و سخا کے دروازے کھول دے (آمین بحر مۃ سیّد المرسلیٰن ﷺعلیہ و آلہٖ و اصحابہ اجمعٰین) *****