غزلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیمان جاذب

سلیمان جاذب

غزل
کیسے رستے ہیں نگر کیسا ہے
زندگانی کا سفر کیسا ہے
تم تو اس گاؤں سے ہو آئے ہو
گاؤں کیسا ہے وہ گھر کیسا ہے
خار پتوں کی طرح اگتے ہیں
یہ عداوت کا شجر کیسا ہے
جیت کانشہ تو ہے اپنی جگہ
ہار جانے کا ہنر کیسا ہے
رات ، تنہائی کے صحرا میں بسر
دن سرراہ گزر کیسا ہے
یہ بھی اس نے نہیں پوچھا جاذب
حال دل،زخم جگر کیسا ہے
..........................
غزل

زندگی اک نصاب ہے با با
عمر بھرکاعذاب ہے بابا

روح میں درد یوں سمویا ہے
روزوشب اضطراب ہے بابا

بے وفا تو چلے ہی جاتے ہیں
تیرا جانا عذاب ہے بابا

تونے ایسا سوال پوچھا ہے
جس کا الجھا جواب ہے بابا

میری آنکھوں میں بس گیا ہے چمن
تیرا چہرا گلاب ہے بابا
غزل

برسوں کا شناسا ، بھی شناسا نہیں‌لگتا
کچھ بھی پَسِ ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا

کر لوں میں یقیں کیسے کہ بدلہ نہیں کچھ بھی
لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا

اک تیرے نہ ہونے سے ہوا حال یہ دل کا
بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا

کاغذ سے وہ مانوس سی خوشبو نہیں آئی
یہ خط بھی تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں لگتا

آنکھوں میں میری اس لئے جاذب یہ نمی ہے
سوکھا ہوا دریا مجھے اچھا نہیں لگتا
....................................
غزل
الوداع اس کو پھر کہا میں نے
خود سے خود کو جدا کیا میں نے


ما ننا دل کا فیصلہ ہے اب
کر لیا ہے یہ فیصلہ میں نے

مشکلوں سے جسے قریب کیا
عجلتوں میں گنوا دیا میں نے

کتنے نزدیک سے اسے دیکھا
درمیاں رکھ کے فاصلہ میں نے


ایک چپ کام کر گئی کتنا
جیسے سب کچھ ہی کہہ دیا میں نے
...................
غزل


تن بدن سے لپٹ گئی سردی
پھر بھی لگتی ہے اجنبی سردی

دیکھ کر چاند مسکراتا ہے
کرتی جاتی ہے گدی ، گدی سردی

میرے ہمراز میرے ساتھی ہیں
چودھویں شب کی چاندنی سردی

آج باہر غضب کی با رش ہے
آج اپنوں میں اجنبی سردی

سرد مہری تھی اس قدر جاذب
اور بھی کچھ ٹھٹھر گئی سردی
غزل
نگاہ یا ر میں تلخی بہت تھی
سو اپنی آنکھ بھی چھلکی بہت تھی

مجھے بھی حال دل کہنا تھا اس سے
اسے بھی، جانے کی جلدی بہت تھی

نہیں وہ بھولتی ساون کی بارش
جواں تھے جسم، اور گرمی بہت تھی

خوشی نے یوں کیا گلنار چہرہ
نمیدہ آنکھ کجلائی بہت تھی

اچانک آ گیا تھا یادگاؤں
گھٹا جب رات بھر بر سی بہت تھی
.............
غزل
یہ خزاں کہ بہار ہے جاناں
سب ترا اختیار ہے جاناں

پوچھتی ہیں یہ مضطرب موجیں
کون دریا کے پار ہے جاناں

گھر کے آئے ہوئے ہیں یہ بادل
آنکھ پھر اشک بار ہے جاناں

ضبط آخر کوئی کرے کب تک
درد بے اختیار ہے جاناں

رات میں نیند ، دن میں چین نہیں
اک عجب ، انتشار ہے جاناں

کیوں طبیت اداس ہے میری
کیوں ترا انتظار ہے جاناں

کا غذی نائو ، زندگی جاذب
پر مجھے اعتبار ہے جاناں
.............
ایک اور غزل


آس کا دیپ جلایا پھر آج
اک گھروندا سا بنایا پھر آج

تیرے گاؤں سی تھی ساری گلیاں
دل نے اک شہر بسایا پھر آج

بھول جانے کی اسے بھول ہوئی
مجھ سے بچھڑا مرا سایہ پھر آج

تذکرہ اس کا جو لے بیٹھے ہو
اور اگر اس نے جگایا پھر آج

فون بھی بند رہا ہے جاذب
Related Posts with Thumbnails