اسلام آسان دین



حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آسانیاں پیدا کرنا اور مشکل مت کرنا، خوشخبری سنانا اور نفرت انگیزی مت کرنا”۔
(بخاری)

فائدہ:۔
دین اسلام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو بہت سہل و آسان رکھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ”دین آسان ہے”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات اس قدر خیال رہتا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صحابی کو کسی علاقہ یا قبیلہ میں دعوت یا امارت کی مہم میں بھیجتے تو جو نصیحت بطور خاص کرتے اس کا خلاصہ یہ ہوتا کہ دیکھو آسانیاں پیدا کرتے رہنا، صرف دشوار و مشکل مسائل و احکام مت بتاتے و نافذ کرتے رہنا۔ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خود اپنا عمل بھی یہی تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو پہلوؤں میں کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقع ہوتا تو آسان پہلو ہی اختیار فرماتے۔

دین اسلام میں انسانی فطرت کا بہت خیال رکھا گیا ہے جو سہولت کو چاہتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے: اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا”۔ (البقرہ۔185)۔ اسی سورت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے: ”اللہ کسی جان کو اسکی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا”۔ (البقرہ۔186)۔ یہی مضمون قرآن کریم میں سات آٹھ بار آیا ہے۔

دین کے آسان کیے جانے کی ایک مثال یہ ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر اصلاً پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں، لیکن پھر وہ کم کرکے صرف پانچ کردی گئیں اور ثواب پچاس کا باقی رکھا گیا۔ ذرا سوچئے کہ انسان و جن کو پیدا کرنے کا جو مقصد اللہ تعالٰی نے قرآن میں بیان فرمایا ہے کہ: ”میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے”۔ اس کی رو سے اگر پچاس نمازوں کو ہی باقی رکھا گیا ہوتا تو وہ عین انصاف ہوتا۔ لیکن اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی قوت تحمل کی اچھی طرح جانتا ہے اس لیے صرف اتنے کا ہی ذمہ دار کیا گیا ہے جو کوئی انسان بآسانی ادا کرسکے۔ روزے سال میں صرف تیس دن فرض کیے گئے۔ اگر کوئی نفلی روزے سال کے تین سو ساٹھ دن رکھنا چاہے تو اس سے منع کیا گیا۔ آپ کسی مجبوری کی وجہ سے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے پر قادر نہ ہوں تو بیٹھ کر پڑھ لیجیے۔ وہ بھی ممکن نہ ہو لیٹ کر ادا کر لیجئے۔ یہ سب دین اسلام کے آسان ہونے کی باتیں ہیں۔

اگر ہم دوسرے مذاہب میں دین کے نام پر کی جانے والی ریاضتوں اور عبادات کی شکلوں پر صرف ایک نظر ڈال لیں تو ہمیں دین اسلام کی آسانی زیادہ واضح ہو جائے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ اس آسانی کا مطلب یہ نہیں کہ خود دین میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کی جائے۔ یہ آسانیاں عمل کرنے والوں کے لیے ہیں نہ کہ ان کے لیے جو سرے سے عمل کرنا ہی نہیں چاہتے۔

مذکورہ بالا حدیث میں خوشخبری سنانے کی بات کہی گئی ہے جس کا مقصد ہے کہ آخرت کی کامیابی و اجروثواب کی باتیں کی جائیں جن سے سننے والے میں اللہ تعالٰی کی اطاعت کی طرف لپکنے کی چاہت پیدا ہو۔ عبادت کا جذبہ وجود میں آئے اور عمل میں جان آئے۔ قرآن کریم خوش خبریوں سے بھرا پڑا ہے۔ البتہ وعید ان لوگوں کے لیے آئی ہے جو کفر و نفاق اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی پر مصر ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت کہ ”خوشخبری سنانا اور نفرت انگیزی مت کرنا” آج دعوتی سرگرمیوں میں مشغول افراد و جماعتوں کے لیے خاص پیغام ہے۔ آج ہمیں اس سنہری اصول پر عمل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ دین کی دعوت دیتے وقت ایسی آیات و احادیث کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے جن میں بشارت و خوشخبری ہو تاکہ سننے والے کے قلب میں انشراح پیدا ہو۔ اسے اپنے عمل کی قیمت معلوم ہو اور دین میں آگے بڑھتے رہنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اللہ تعالٰی کے راضی ہونے کا ذکر، جنت کی نعمتوں کا تذکرہ، آخرت کی کامیابی کا مفہوم، عمل پر ملنے والے اجر کی تفصیل، یہ ساری باتیں خوش خبری سنانے کے ضمن میں آتی ہیں۔
Related Posts with Thumbnails